08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط3
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر3
بہت وقت گزر گیا تھا پر کچھ نہ تھا یہاں۔
پورا دن گزر گیا۔
نجم شرمندہ تھا پر ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
ایسا کرتے ہیں اتنا بڑا جنگل ہے کوئی اور جگہ دھوندتے ہیں۔
اوکے چلو پھر عثمان اور سب سامان اٹھانے لگے۔
اگلا دن بھی اسی طرح گزر رہا تھا۔
بھوک لگی ہے ندیم بولا۔
ہاں کرتے ہیں کچھ تو۔ یہاں تو پرندے بھی لگتا ہے ختم ہو گئے ہیں۔
وہ لال کوا ۔کیا وہ حلال ہے۔
نہیں جو پرندہ پاؤں سے پکڑ کر کہے وہ حرام ہوتا۔ حبیب بولا۔
وہ ادھر چڑیا ہیں دیکھو نہ ان پے ہی کام چلاتے ہیں اگر ہاتھ آ جایں تو۔
پھر غلیل اور بندوق سے پندرہ بیس گرا سکے اور کچھ پیٹ بھرا۔
اب کہاں جال لگایں ۔عثمان اب دل سے پچھتا رہا تھا کہ وہ کیوں آیا دوستوں کے ساتھ۔
اب کیا ہو سکتا تھا۔ سب سر پکڑ کر بیٹھے تھے اور نجم کو لتاڑہے جا رہے تھے۔
یہی ہمیں ادھر لایا تھا اگر ہم پرانی جگہ ہوتے تو کامیاب ہوتے۔
میں نے تو کسی سے سنا تھا اب مجہے کیا پتہ تھا نجم روہانسا ہو رہا تھا۔
چھوڑو سب باتوں کو یہ سوچو اب آگے کرنا کیا ہے۔ واپس چلتے ہیں۔ عثمان بولا۔
خالی ہاتھ جا کر ناک کٹوانی ہے کیا۔
کچھ اور کوشش کرتے ہیں۔نجم بولا۔
وہ سامنے دیوار ہے یار اس کے دوسری طرف دیکھتے ہیں۔
پر یہ تو کافی اونچی ہے۔ کسی طرح چڑتے ہیں۔
اس پار تو دیکھیں۔
کس نے بنائی ہوگی۔ اور ادھر کیا ہوگا۔ نجم بولا۔ مجہے ڈر لگ رہا ہے۔
بس یار چلتے ہیں چھوڑو سب۔
حبیب کے دل میں واقعی ڈر تھا کچھ انہونی کا۔
وہ دیوار لگ تو نزدیک رہی تھی پر چلتے ھوے انکو پتہ لگا کے فاصلہ بہت تھا۔
تھک گئے تھے سب اور گرمی بھی بہت تھی۔
مجہے پیاس لگ رہی ہے اور پانی بھی کم ہے ہمارے پاس۔ توقیر بولا۔
شام ہونے والی ہے۔ اب انہوں نے دیوار کو دیکھا۔ ایک بندہ اوپر چڑھ کر دیکھے ۔
نجم چڑھا ۔یار کافی دور لگتا ہے کچھ بندے ہیں لگ رہا۔
سچ کہ رہا ہے تو۔ حبیب خوش ہوا۔ ہاں یار سچ میں۔ میں نے دیکھا ہے ایک بندے کو۔
چلو پھر سب تیاری پکڑو ادھر ہی جاتے ہیں۔
انکو کیا پتہ تھا کہ وہ موت کی طرف جا رہے تھے۔
بڑی مشکل سے سب چڑھ کر دوسری طرف کودے۔ پھر آہستہ آہستہ اسی طرف چل پڑے۔
آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچ چکے تھے۔
یار یہ تو چھوٹی سی بستی ہے اور وه دیکھو وہ تو ہوٹل لگ رہا ہے۔
یار حیرانی ہے اس جگہ ہوٹل۔ عثمان حیران تھا۔
قریب پہنچے تو دو بندوں نے انکو دیکھ لیا تھا۔
کچھ اور بھی آ گئے تھے۔ سلام صاحب جی۔ انہوں نے سبکو سلام کیا۔
وا۔سلام۔ وہ بولے آہیں اندر آہیں۔ کچھ پییں کھائیں۔
جی ضرور سب خوش تھے ساتھ چل پڑے ان کے۔
یار سکون آ گیا اب۔ نجم خوش تھا۔
ہاں یار ورنہ میں تو ڈر رہا تھا اب حبیب بولا۔
اب تو کوئی ڈر نہیں۔ توقیر بھی خوش تھا۔
انہوں نے لسی ان کے سامنے لا کر رکھی۔
گرمی میں لسی سب خوش ہو کر پینے لگے۔
سب خوش تھے سوا عثمان کے۔
لسی پیتے ھوے اس نے ان پر نظر ڈالی تھی تو اسکو انکا دیکھنا عجیب لگا تھا خاص طور پر ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے چہروں پر ہوس تھی۔
وہ بار بار ان سب کے جسم کو دیکھ رہے تھے۔
عثمان کو عجیب لگ رہا تھا۔
پھر اسنے اپنا وہم جانا اور اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔
صاحب رات ہو رہی ہے۔ آپ لوگ کہاں رہو گے۔ ایک بندے نے آ کے پوچھا۔
آپ کے ساتھ اگر برا نہ لگے تو۔ اصل میں ہمارا ٹھکانہ نہیں ہے۔نجم بولا۔
اس بندے نے سن کر خوش ہو کر سب کو دیکھا۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔
ہم سب خوش ہیں آپ سب کے آنے سے۔
کھانا کھائیں گے۔انہوں نے پوچھا۔
جی سب بولے۔
پھر انہوں نے گرم گرم بریانی ان سب کے سامنے رکھی۔
کھانا بہت مزیدار محسوس ہو رہا تھا سب کو۔
اسکی خوشبو اور گرم گرم وہ تو ٹوٹ پڑے۔
یار گوشت بریانی۔
مجہے بہت پسند ہے یار۔شیری بولا
کھاتے ھوے توقیر نے بوٹی پکڑی تو چیخ ماری۔
کیا ہوا سب پوچھ رہے تھے اس سے اور وہ خوف سے کانپ رہا تھا۔
خوف سے بولا نہیں جا رہا تھا اس سے۔
ہاتھ سے پلیٹ کی طرف اشارہ کر رہا تھا کانپ رہا تھا۔
سب نے ادھر دیکھا تو وہ انسانی انگلی تھی۔